Happy Marriage

              

       

            شادی مبارک

                                  
کورونا وائرس سے پہلے کی شادیوں میں فضول قسم کے رسم و 
رواج تھے جو اب بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہیں۔لیکن بعض لوگوں نے انتہائی سادگی سے بھی شادی جیسے عظیم فریضے کو انجام دیا ہے۔بعض لوگوں نے کورونا وائرس کے دور میں بھی شادیوں پر بے پناہ اخراجات کیے ہیں۔لیکن کچھ لوگوں نے سادگی سے نکاح کر کے رخصتی بھی کر لی ہے۔اگر سادگی سے شادیوں کو فروغ دیا جائے تو بہت سارے والدین قرضوں کے بوجھ سے بچ سکتے ہیں۔شادیوں میں میں فضول قسم کے رسم و رواج کچھ ایسے ہیں۔


اس تحریر کو پورا پڑھیں تا کہ آپ کو پتہ چل سکے کہ کیسے ہم ہم فضول رسموں سے بچ سکتے ہیں۔


موجودہ دور میں معاشرے میں شادی بیاہ کو اس قدر مشکل کام
دیا گیا ہے کہ یہ شادی نہیں بلکہ ایک میلہ لگتا ہے۔ہر علاقے اور برادری میں شادی بیاہ کی اپنی اپنی الگ رسومات ہوتی ہیں۔ہر علاقے اور برادری میں امیر لوگ تو ان رسم و رواج کو بڑے پیمانے پر بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔وہ ان رسم و رواج پر پانی کی طرح پیسہ بہا دیتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے ہر علاقے اور ہر برادری کے امیر لوگوں کے پاس مال ودولت کی ریل پیل ہوتی ہے۔وہ لوگ شادی بیاہ کی تقریبات یا دیگر تقریبات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں بڑے پیمانے پر اخراجات کرتے ہیں۔

اس معاشرے میں امیر لوگوں کی دیکھا دیکھی غریب اور عام لوگوں نے بھی شادی بیاہ پر بے پناہ اخراجات کرنے شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے میں شادی بیاہ ایک مہنگا ترین کام بن گیا۔

جب سے متوسط طبقے نے شادی بیاہ کے موقع پر امیر لوگوں کی نقل کرنی شروع کی ہے۔ اور اپنے آپ کو امیر لوگوں کی صف میں لانے کی ناکام کوششیں شروع کی ہیں ۔ عام آدمی کے اس عمل نے خود کو ایسی دلدل میں پھنسا دیا ہے کہ جس سے اب اسے نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔متوسط طبقے کے غریب لوگ  اپنی عزت رکھنے کے لیے قرض لے کر اپنے بچوں کی شادی کرتا ہے اور وہ قرض اتارت

ے ہوئے وہ اپنی پوری زندگی لگا دیتے ہیں۔ایک عام آدمی جب اپنے پچوں کی شادیاں کرتا ہے تو اس کے لیے شادیوں کے اخراجات پورے کرنا اس قدر مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے بار بار قرض لینا پڑتا ہے۔ابھی ایک شادی کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا تو وہ دوسرے بچے کی شادی کے لیے قرض لیتا ہے۔اسی طرح ایک عام آدمی زندگی بھر قرض کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔اور وہ قرض کا بوجھ اپنی اولاد پہ ڈال کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے       
               

         شادی بیاہ کی فضول رسمیں

      اسی وجہ سے آج صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اس معاشرے میں لوگ جب اپنے لیے لیے بہو ڈھونڈنے جاتے ہیں تو ہر کسی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بہو چاند جیسی خوبصورت ہو۔شہروں میں بعض جگہوں کی صورتحال کچھ اس طرح کی بھی ہے کہ لڑکے والے بھی لڑکی والوں سے جہیز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔اور بہت سارے غریب لوگ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔اور عام طور پر جب بھی لڑکے والے رشتہ لے کر لڑکی والوں کے جاتے ہیں تو لڑکی والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا مالی لحاظ سے اپنے پیروں پہ کھڑا ہو۔جب کہ لڑکی والوں کا یہ مطالبہ کسی صورت ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایک 20 سے 25 سال کا  لڑکا کسی طور بھی مالی لحاظ سے مستحکم نہیں ہو سکتا۔مالی لحاظ سے مستحکم ہونے کی یہ عمر ہی نہیں ہوتی۔کیونکہ مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہوتے ایک شخص 40 سے 50 سال کی عمر کو بھی پہنچ جاتا ہے۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے 40  سے 50 سال کی عمر کا لڑکا تلاش کریں۔تب ہی ان کو اپنے مطلوبہ میعار کا داماد مل سکے گا۔


          شادی بیاہ میں غیر مسلموں والی رسمیں


اس وقت دنیا میں یہ ایسے بڑے  مذاہب ہیں جو کے مختلف تعلیمی درسگاہوں اور تحقیقی اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں اسلامِ، عیسائیت ، یہودیت ، ہندو ازم ، سکھ ازم اور بدھ ازم۔ان کا جائزہ لینے کے بعد دنیا بھر کے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ  صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ جہاں  عبادات، معاملات اور اخلاقیات تک ہر پہلو پر رہنمائی موجود ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا بہت سا حصہ سماجی اور معاشرتی زندگی کے  اصولوں پر مبنی ہے۔ عام طور پر اسی کی دلکشی بہت سارے لوگوں کے قبول اسلام کا سبب بنی لیکن جب ہم اپنے مسلمان معاشرے کو دیکھتے ہیں تو کچھ اس طرح سے محسوس ہوتا کہ جیسے ہم بھکاری ہیں۔ کوئی رسم اِدھر سے لے لی اور کوئی اُدھر سے لے لی۔ غیر مسلموں سے لی گئی رسموں سے اپنے معاملات چلا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنی ثقافت اور تاریخ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں۔ 

                                                                  منگنی

کچھ  ایسی رسومات جو کہ غیر اسلامی ہیں۔ان میں سے ایک منگنی کی رسم ہے۔ اگرچہ دو خاندانوں کے درمیان شادی کی بات پکی ہونے کا نام منگنی ہے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن منگنی اب ایک باقاعدہ طور پر رسم بن چکی ہے جس میں دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کو  اکٹھا بٹھایا اور ملایا جاتا ہے۔ زیورات تیار کئے جاتے ہیں۔پھر شادی کے لیے لمبا عرصہ رکھا جاتا ہے۔ جو کہ بعض دفعہ سالوں میں ہوتا ہے۔اس عرصے میں اور بھی بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔عید کے تہواروں میں مہنگے ترین تحفے تحائف کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے۔اگر اس عرصے میں کسی کی منگنی ٹوٹ جاتی ہے۔ معاشرہ اس کا سارا الزام مظلوم لڑکی پہ ڈال دیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ضرور لڑکی میں ہی کوئی عیب ہو گا۔اس بیچاری لڑکی کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔اس بیچاری لڑکی کو ناکردہ گناہ کی سزا دی جاتی ہے۔ پھر ایسی لڑکی جس کی منگنی ٹوٹ جاتی ہے اسے اپنانے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔اس طرح کی منگنی کی رسم منانے کی اسلامی تاریخ میں کوئی روایات نہیں ملتی۔


                                                                                                    تیل مہندی


شادی کے موقع پر ایک رسم تیل مہندی کی بھی انجام دی جاتی ہے۔یہ رسم اتنی مشہور ہے کہ جیسے اس رسم کے نہ ہونے سے شادی ہی نہیں ہو گی۔یہ بھی ایک غیر اسلامی رسم ہے۔ اس رسم کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں البتہ ہندوٶں میں اس رسم تیل مہندی کی کافی اہمیت ہے۔ہندوٶں کے مذہبی رہنما بھی مہندی کے رنگ کا لباس بھی پہنتے ہیں۔ مہندی کی رسم ہندو کلچر کا باقائدہ حصہ ہے۔                                 

                                                                                                                                            جہیز                 

  اسلامی معاشرے میں بیٹی کو رخصت کرتے وقت جہیز دینا سنت ہے۔لیکن آج کل جہیز بھی وبال جان بن چکا ہے۔معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شادی کے موقع پر لڑکی والوں کو باقائدہ جہیز کی ایک لسٹ تیار کر کے دیتے ہیں۔پھر اگر وہ لڑکی جہیز کا زیادہ سامان نہیں لاتی تو اس بیچاری لڑکی کا سسرال میں جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔اگرچہ ہر کوئی ایسا نہیں کرتا لیکن معاشرے میں کچھ اس طرح کے بھکاری بھی نظر آتے ہیں۔جنھوں نے جہیز کو بھی ایک ایسی رسم بنا دیا ہے کہ یہ بھی ایک مہنگی ترین رسم بن گئی ہے۔آج اس رسم نے بھی ایک غریب اور عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ایک باپ جب اپنی لڑکی کی شادی کرتا ہے تو وہ اس موقع پر بھی ایک بڑے قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔


                                        مہمان اور تحفے تحائف

یوں شادی بیاہ ہر خاندان کے لیے ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔اور اسلام ایسی خوشی منانے سے ہر گز منع نہیں کرتا۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” نکاح میری سنت ہے“ لیکن معاشرے میں آج جب کسی کے ہاں بھی شادی کی تقریبات شروع ہوتیں ہیں۔ تو کئی دن پہلے سے ہی لڑکی اور لڑکے کے گھروں میں بڑی تعداد میں مہمانوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ان مہمانوں کے لیے مہنگے ترین پکوانوں کا اہتمام کیا جا جاتا ہے۔شادی کے موقع پہ مہنگے ترین لباس پہنے جاتے ہیں۔بعض جگہوں پر شادی کے موقع پر  یہ رسم  بھی ہوتی ہے۔لڑکی والے اور لڑکے والے اپنے اپنے تمام رشتہ داروں کو مہنگے ترین ملبوسات تحفے میں دیتے ہیں۔شادیوں کے موقع پر کئی کئی دن تک آتش بازی کی جاتی ہے۔


                                                 نکاح اور ولیمہ


نکاح اور ولیمے والے دن بھی ہزاروں افراد کے جم غفیر کے لیے مہنگے ترین پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک عام اور غریب شخص بھی یہ سارے مہنگے ترین اہتمام کرتا ہے۔اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرے تو معاشرہ  اسے طعنے دیتا ہے۔


                                                              زیورات


ان سب فضول قسم کی رسموں میں سے ایک یہ رسم  بھی کئی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔لڑکی والے لڑکے والوں سے سونے کے زیورات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ بعض دفعہ تین تولے سے لے کر دس ٗپندرہ تولے سونے کے زیورات تک بھی پہنچ جاتا ہے۔اس رسم کو پورا کرنے کے لیے لڑکا اور اس کے والدین کو بھاری قرض لینا پڑتا ہے۔اور ان کی ساری عمر اس قرض کو ادا کرنے میں گذر جاتی ہے۔جبکہ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس زیور کو لڑکی پہنتی ہی نہیں ہے۔وہ زیور گھر میں ہی رکھا رہتا ہے۔اس زیور کو لڑکی صرف نکاح والے دن یا پھر ولیمے والے دن ہی پہنتی ہے۔اس زیور کی خاص بات یہ ہے کہ جب یہ زیور مہنگے ترین داموں سونار سے بنوایا جاتا ہے۔اس وقت جو بھی اس کی قیمت ہوتی ہے۔اس کے صرف دو ماہ بعد ہی اگر کوئی اس زیور کو بیجنا چاہے تو وہی سونار اس کا ریٹ آدھا بھی نہیں لگاتا۔یہ زیور والی رسم اس قدر فضول قسم کی رسم ہے کہ اس میں آدھا نقصان اس زیور خریدنے والے کو فوری طور پہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔


                                           دوسرا اور تیسرا


شادی کی رسومات صرف شادی یا ولیمہ کے دن تک ہی محدود نہیں رہتی۔یہ رسومات شادی کے بعد بھی جاری رہتی ہیں۔نکاح و بارات والے دن کے اگلے بھی ایک رسم ادا کی جاتی ہے۔اس رسم میں لڑکی والے اپنے رشتہ داروں اور محلے والوں سمیت لڑکے والوں کے ہاں آتے ہیں اس دن بھی شاندار قسم کی ضیافت ہوتی ہے۔اس سے اگلا دن جسے تیسرا کہا جاتا ہے۔اس دن لڑکے والے سب رشتہ داروں اور محلے والوں سمیت لڑکی والوں کے ہاں جاتے ہیں۔اس دن بھی مہنگے پکوانوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔



                                                    شادی ہال


شادی ہال گو کہ ابھی بند ہیں لیکن ایک رسم یہ بھی ہے کہ مہنگے ترین شادی ہال بک کیے جاتے ہیں۔پہلے پہل یہ رسم صرف شہروں میں تھی لیکن اب یہ رسم دیہات میں بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔پیسے والے لوگ تو آسانی سے شادی ہال بک کروا لیتے ہیں لیکن غریب اور متوسط طبقے کے لوگ بڑی مشکل سے قرض لے کر ہی شادی ہال بک کرواتے ہیں۔اگر شادی میں فضول  قسم کی یہ رسم نہ بھی ہو تو بھی شادی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔


                                      نوجوان لڑکو اور معزز لڑکیو


نوجوان لڑکو اور معزز لڑکیو ! آج اللہ نے آپ سب کو ایک ایسا موقع دیا ہے۔کورونا کی وجہ سے پہلے تو بلکل ہی شادیوں پہ پابندی تھی لیکن اب بعض لوگ کم پیمانے پر اپنے گھروں میں ہی شادیوں کی تقریبات کر رہے ہیں۔نوجوانوں شادی کو آسان بنانے کی تحریک کا آغاز خود سے کرو۔اس دور میں ہی سادگی سے اپنا نکاح کرو۔آپ جب اپنا نکاح سادگی سے کرو گے تو معاشرے پر اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔پھر جو لوگ شادی پر اپنی دولت پانی کی طرح بہا دیتے ہیں ان امیر لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔معاشرے کا پسا ہوا طبقہ نہ ختم ہونے والے قرض کے بوجھ سے بھی بچ جائے گا۔
شادیوں میں یہ ساری فضول قسم کی رسموں کو ختم کر دیا جائے اور شادیوں پہ جو دولت خرچ ہوتی ہے۔ انہی پیسوں سے دولہے اور دلہن کو حج یا عمرہ کروا دیا جائے۔اگر دولہا اور دلہن اپنی نئی زندگی کا آغاز نیک کام سے کریں گے تو ان کی پوری زندگی ہو سکتا ہے کہ بہت خوشگوار گزرے۔

نوجوان خود فیصلہ کریں کہ ان کو کس طرح کی شادی کرنی ہے۔اور 
کس طرح کی زندگی گزارنی ہے۔

==================================

                                     

       Happy Marriage

==================================
                                      
 Wasteful rituals in happy marriages before the corona virus

 There were traditions that are still going on in one form or another. But some people have performed a great duty like marriage with utmost simplicity. Some people have spent a lot of money on marriages even in the age of corona virus.  Many parents can avoid the burden of debt if simple marriages are promoted. There are some kind of frivolous rituals in marriages.


 Read this article to know more about how we can avoid unnecessary rituals.


 Marriage is such a difficult task in today's society

 It has been given that this is not a wedding but a festival. Every area and community has its own wedding rituals. In every area and community, rich people can easily perform these rituals on a large scale.  They pour money like water on these rituals.  It is straightforward that the rich people of every region and every community have a wealth of wealth. They spend a lot of money trying to outdo each other in wedding ceremonies or other celebrations.


 In this society, the rich and the poor have also started spending a lot on marriage.  At the same time, marriage became one of the most expensive tasks in society.

 Ever since the middle class began to imitate rich people at weddings.  And they have made unsuccessful attempts to bring themselves into the ranks of the rich.  This act of the common man has plunged itself into a quagmire from which it is now becoming increasingly difficult to get out. The poor people of the middle class marry off their children with loans to maintain their dignity and they  They spend their whole lives trying to get out of debt. When a common man marries his children, it becomes so difficult for him to meet the expenses of the wedding that he has to take a loan again and again.  If it does not end, then he takes a loan for the marriage of another child. Similarly, a common man is burdened with debt for the rest of his life. And he leaves this world by passing the burden of debt on to his children.

 Wasteful Happy Marriage Rituals


 That is why the situation today is that in this society, when people go in search of a daughter-in-law for themselves, everyone wants their daughter-in-law to be as beautiful as the moon. The situation in some places in cities is similar.  That is, boys also demand dowry from girls. And many poor people are not in a position to meet the demand for dowry from boys. And usually whenever boys have a relationship with girls.  When they go, the girls want the boy to stand on his own two feet financially. However, this demand of the girls is not possible at all.  A 20 to 25 year old boy cannot be financially stable in any way. This is not the age to be financially stable. Because being financially stable a person reaches the age of 40 to 50 years.  ۔  Such parents should look for a boy between the ages of 40 and 50 for their daughter. Only then will they be able to find a son-in-law of their desired standard.



 Non-Muslim wedding rituals



 Currently, these are the major religions in the world that are taught in various educational institutions and research institutions and they are Islam, Christianity, Judaism, Hinduism, Sikhism and Buddhism. After reviewing them, researchers from all over the world  Agree that the complete code of conduct is found only in the teachings of Islam.  Where there is guidance on every aspect of worship, affairs and ethics.  Much of the teachings of Islam are based on the principles of social life.  In general, its charm led many people to accept Islam, but when we look at our Muslim society, it feels like we are beggars.  Some took the ritual from here and some took it from there.  They are making a living from the rituals taken from non-Muslims.  Living nations never compromise on their culture and history.


 Engagement


 Some of the rituals are un-Islamic. One of them is the engagement ceremony.  Although the marriage between the two families is a matter of engagement, there is no problem.  But engagement has now become a formal ritual in which friends are invited.  Gifts are given.  Boy and girl are put together and mixed.  Jewelry is made. Then it is kept for a long time for marriage.  Which sometimes happens in years. Many more rituals are performed during this period. The most expensive gifts are also exchanged during Eid festivals. If one's engagement is broken during this period.  Society puts all the blame on the oppressed girl. It is said that there will be some defect in the girl. The life of this poor girl is made indigestible. This poor girl is punished for an uncommitted sin.  Then no one is ready to adopt a girl whose engagement is broken. There is no tradition in Islamic history to celebrate such an engagement ceremony.


 Henna oil



 A ritual of henna oil is also performed on the occasion of marriage. This ritual is so famous that without this ritual there will be no marriage. This is also an un-Islamic ritual.  This ritual has nothing to do with Islam.  Of course, this ritual of henna oil is very important among Hindus. Hindu religious leaders also wear henna-colored clothes.  The henna ritual is a regular part of Hindu culture.

 Dowry


 In Islamic society, it is Sunnah to give dowry to a daughter when she is on leave. But nowadays, dowry has also become a thing of the past.  Then, if the girl does not bring much dowry, then it is haraam for the poor girl to live with her father-in-law. Although not everyone does that, but there are some such beggars in the society.  It has become such a ritual that it has also become one of the most expensive rituals. Today this ritual has also made the life of a poor and common man indigestible. When a father marries his daughter, he is also an adult on this occasion.  Debt burdens.


 Guests and gifts


 Thus, marriage is a happy occasion for every family. And Islam does not forbid such a celebration at all. Our Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, “Marriage is my Sunnah.”  Yes, wedding ceremonies begin.  So many days before the arrival of a large number of guests in the house of the girl and the boy. The most expensive dishes are prepared for these guests. The most expensive clothes are worn on the occasion of the wedding. In some places.  But this ritual is also performed on the occasion of marriage. The bride and groom give the most expensive clothes as gifts to all their relatives. Fireworks are set off for many days on the occasion of weddings.


 Marriage and Betrothal



 Even on the day of marriage and betrothal, the most expensive dishes are prepared for thousands of people at Jim Ghafir.  Even an ordinary and poor person takes care of all these expensive things. If he does not do all this, the society will ridicule him.



 Jewelry



 One of these frivolous rituals is also found in many areas. Girls demand gold ornaments from boys.  This demand sometimes extends from three tola to ten to fifteen tola of gold jewelery. To fulfill this ritual, the boy and his parents have to take a huge loan. And they have to pay this debt for the rest of their lives.  I pass. While it is generally observed that the girl does not wear this ornament. The ornament is kept in the house. The girl wears this ornament only on the day of marriage or on the day of betrothal.  The special thing about jewelry is that when this jewelry is made from the most expensive goldsmith. At that time, whatever its price is. Only two months after that, if someone wants to sow this jewelry, the same goldsmith halves his rate.  This ornament ritual is such a wasteful ritual that the person who buys this ornament has to bear half of the loss immediately.


 Second and third Day



 Wedding rituals are not limited to the day of marriage or betrothal. These rituals continue even after marriage. A ritual is also performed on the day after marriage and barat. In this ritual, the girl has to go to her relatives and neighbors.  On this day there is a wonderful feast. The next day which is called the third day. On this day all the relatives of the boy and the people of the neighborhood go to the girl's house. On this day also expensive dishes.  The guests are humiliated.



 Married Haal



 Although the wedding halls are still closed, there is a tradition that the most expensive wedding halls are booked. At first, this ritual was only in the cities, but now this ritual is spreading rapidly in the villages as well. People with money can easily  They get the marriage hall booked but the poor and middle class people book the marriage hall with great difficulty only by taking a loan. Even if there is no such wasteful ritual in the marriage, there will be no effect on the marriage.



 Young boys and honorable girls 



 Young boy and honorable girl!  Today, Allah has given you all such an opportunity. Due to Corona, earlier marriages were strictly prohibited but now some people are celebrating marriages on a small scale in their own homes.  Start with yourself. Marry yourself simply in this age. When you marry simply, it will have a positive effect on the society. Then the rich people who pour their wealth like water on marriage.  Will also be discouraged. The downtrodden section of society will also escape the burden of indebtedness.

 Get rid of all these frivolous rituals at weddings and the money spent on weddings.  With this money, the bride and groom should be allowed to perform Hajj or Umrah. If the bride and groom start their new life with good deeds, then their whole life can be spent very happily.


 Young people decide for themselves how to get Happy Married

 How to live














Comments

Popular posts from this blog

Donald Trump announced to kiss and kiss beautiful women in meetings

Impress Your Loved Ones With Special Roses

BEAUTIFUL WATERFALLS OF THE WORLD